Friday 20 November 2015

فیض احمد فیض اور اقبال بانو ۔ اظہار اور جراٰت اظہار؟

ہم دیکھیں گے۔۔۔
کیا یہ ممکن ہے کہ فیض احمد فیض صاحب کی  شاعری کا تذکرہ ہو اور  ہم دیکھیں گے کی بازگشت نہ سنائی دے؟ 
در حقیقت یہ فیض صاحب کی شاعری نہیں تھی  بلکہ جیسے طبقاتی استحصال کے شکار عوام کے جذبات کو الفاظ مل گئے اور اقبال بانو صاحبہ نے اس نظم کو انتہائی غیر محسوس انداز سے پاکستان میں بائیں بازو کا ترانہ بنا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فیض صاحب کے کلام میں شائد ہی کسی اور نظم کو عوامی سطح پر اتنی پذیرائی ملی ہو جتنا اقبال بانو نے اس کلام کو دوام بخش دیا۔
پاکستان میں فیض صاحب کے مداحوں کی اکثریت کو شائید یہ معلوم نہ ہو گا کہ فیض احمد فیض نے جنرل ضیاالحق کی درخواست پر اس مقبول ترین نطم کو اپنی کلیات نسخہ ہائے وفا سے حزف کر دیا تھا۔ اس حقیقت کو جاننے کے بعد یہ عقدہ بھی کھلتا ہے کہ اس کلام میں فیض صاحب کے الفاظ تو ہیں مگر جرات اظہا ر کا کریڈٹ اقبال بانو کو ہی دینا ہو گا۔ مت بھولیں کہ ۱۹۸۰ کا عشرہ ہو۔ ایک پاکستانی خاتون اور موسیقی ۔ یقینا اقبال بانو کا آہنی حوصلہ ہی اس نظم کو امر کر گیا۔
برطانیہ کا آئین کہیں تحریری شکل میں تو موجود نہیں مگراس نے ایک عظیم ایمپائر کی بنیاد رکھی بالکل اسی طرح ایک آمر نے قرطاس سے الفاظ کو تو مٹا دیا مگر اقبال بانو نے اپنی آواز سے عوامی امنگوں کی تعبیر رقم کر دی۔
 
 
 
 

No comments:

Post a Comment