Sunday 2 August 2015

ملا عمر کا آسیب

جب ملا عمر  کی ہلاکت کی خبر بی بی سی سے  نشر ہوئی تو  کوئی اچنبے کی بات نہ تھی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ  اسامہ بن لادن کے میزبان کی ہلاکت دو سال پیشتر پاکستان میں دو سال پیشتر ہوئی۔
ملا عمر کا اسامہ بن لادن سے تعلق اپنی جگہ مگر ان کی اصل وجہ شہرت یہ تھی کہ ان کی تصویر حاصل کرنا نا ممکنات سے رہا۔ ایک عشرہ سے زیادہ مدت وہ دنیا بھر کے صحافیوں اور ایجنسیوں کے اعصاب پر چھائے رہے۔ پاکستان میں ملاعمر کی ہلاکت میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ بھوت پریت تہزیبوں سے دور کھنڈرات ہی میں بسیرا کرتے ہیں اور دور حاضر میں پاکستان اور افغانستان ہی تہزیب سے دور رہے۔ 
پاکستان تو پے در پے طالع آزماوٗں کے رحم و کرم پر رہا جبکہ جنگ کی آگ افغانستان پر برس رہی تھی ایسے  میں ان دیکھے افسانوی کردار تہزیبوں سے زیادہ محفوظ دکھائی دیتے ہیں۔ ظلمت کی تیرگی میں قوموں کے رکھوالے اپنے معصوم عوام کو ایسے ہی کرداروں سے دھمکا کر سلانے کی کوششیں کرتے ہیں۔
 
 
جب کسی معاشرے سے تہذیب رخست ہو جاتی ہے تو سماجی نا انصافیاں معاشروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیتی  ہیں اور پھر یہاں بھوت پریت بسیرا کرتے ہیں۔
ملا عمر کا کردار ببی کچھ اسی طرح کا ہے۔ ابلاغ کی اطلاعات تو یہ بھی بتاتی ہیں کہ ملا عمر کی صاحبزادی اسامہ بن لادن کے عقد میں تھیں اگر ایسا ہے تو داماد کو پناہ دینے والے کو بہت ہی معصوم سمجھا جانا چاہئے؟ بہر حال جب سوویت جہاد کے لئے ڈالر مل رہے تھے توبہت سے لوگوں نے گھوسٹ مدرسے بنا ڈالے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے ملل عمر کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا ۔ مللا صاحب کی ذیارت بھی صرف انھی لوگوں کو نصیب ہوئی جو حکومت وقت کے منظور شدہ صحافی تھے ۔ جی ہاں منظور نظر کے لئے اس سے بہتر الفاظ ہماری سوچ سے باہر ہیں۔ بہت سے لوگ تو آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جنرل حمید گل کی تمام تر ظاقت ان کی فیس بک آئی ڈی نہیں بلکہ فیس لیس آئی ڈی تھی۔  جمہوریت کے تسلسل سے پاکستان میں یہ پرچھائیاں ختم ہوتی نظر آ رہی ہیں