Friday, 10 June 2016

زکواہ: سود و زیاں؟

گزشتہ دس روز سے اسلامی اور جمہوری پاکستان کے مالیاتی بینکوں میں غیر معمولی رش ہے۔ سٹیٹ بینک نے امسال زکواہ کا نصاب 35575 مقرر کیا ہے۔ ظاہر ہے صارفین کی بڑی تعداد نے بینکوں کا رخ کیا اور ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی زاکواہ کی کٹوتی سے پہلے ہی اپنی رقوم کو محفوظ کرلیا  ۔ یکم رمضان سے پہلے اربوں روپے پاکستانی بینکوں سے نکلوائے گئے مگر بنک انتظامیہ کو زیادہ پریشانی نہیں کیونکہ ہر سال اسی طرح سے پاکستان کے مالی معاملات نمٹائے جاتے ہیں۔

پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق ہر سال یکم رمضان کو بینک اکاونٹ  میں موجود سٹیٹ بینک کے مقرر کردہ نصاب کے مطابق زکواہ کی کٹوتی کی جاتی۔ یادرہے یہ کٹوتی صرف نفع نقصان کی بنیاد پر بنائے گئے اکاونٹ پر وصول کی جاتی ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کی قانون سازی کے وقت سود کو نفع کا نام دیا گیا تھا۔ اور اسی حوالہ سے پاکستان میں مالیاتی اصطلاحات میں ردوبدل بھی کی گئی تھی۔ اگر غور کیا جائے تو آج پاکستان کے بیت المال  میں سود  وصول کرنے والے صارفیں ہی زکواہ ادا کر رہے ہیں۔ کینکہ سود وصل نہ کرنے والے کرنٹ اکاونٹ  کے صارفین زکواہ سے مستثنیٰ ہیں۔

پاکستان میں ایسے قانون پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں جس کے مطابق صرف سود وصول کرنے والے ہی زکواہ کے قوانین کی زد میں آتے ہیں۔
 سوال یہ ہے کہ قرآن پاک میں سود کو اللہ کے خلاف اعلان جنگ کہا گیا ہے۔ کیا زکواہ اد کر کے سود سے بڑھنے والی رقم پاک ہو جائے گی؟ یا بینکوں میں رقوم کے منافع  سے حاصل کی گئے زکواہ مال کی پاکیزگی کی ضمانت سمجھا جائے؟
پاکستان کے مالیاتی اداروں نے اسلامی بینکنگ سے متعلق فتاویٰ کے حصول کے لئے علما کی خدمات بھی حاصل کی ہوئی ہیں اس لئے  جہاں سود آ جائے ہمیں پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ شاید یہ پاکستان کا واحد قانون ہے جہاں کوئی بھی ریاست پر سوال نہیں اٹھاتا

آئندہ ہفتہ بھی پاکستان کے بینکوں میں رش ہی رہے گا اور روزہ دار صارفین قطاروں میں کھڑے زکواہ کی کٹوتی سے بچ جانے والی رقوم کو ایک مرتبہ پھر بنک کی محفوظ تجوری کے سپرد کر کے  اپنے اپنے مسالک کی عبادت گاہوں میں اعتکاف جا بیٹھیں گے تاکہ دنیاوی امور ان کی عبادات میں مخل نہ ہوں